Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”چھ یا سات سال کی ہوگی پری جب آپ نے دیکھا تھا پھر آپ مثنیٰ و سعود کو لے کر امریکا چلے گئے تھے دس سال کے لیے۔“ ثروت جہاں نے داماد کا اچھا موڈ دیکھ کر فوراً کہا ورنہ وہ جانتی تھیں صفدر نے مثنیٰ سے شادی کے بعد پری کو کبھی قبول نہیں کیا تھا دو تین بار ممتا سے مجبورہوکر مثنیٰ نے اس کو بلوایا بھی تو ان کی شخصیت برہمی اور جھگڑا کرنے پر فوراً ہی واپس بھی بھیجنا پڑا تھا۔
اب صفدر کو پری سے اتنے خوش گوار موڈ میں بات کرتے دیکھ کر ان کو قدرے اطمینان ہوا تھا۔

”جی ! آپ درست کہہ رہی ہیں آنٹی ! تب ہی تو میں پری کو پہچان نہیں سکا ہوں۔“ ان کی نظریں ہنوز پری کے چہرے پر تھیں۔

”مثنیٰ کھڑے کیوں ہو بیٹھو بھئی! بیگماں کو سینڈوچ اور چائے کا کہہ چکی ہوں، وہ لاتی ہی ہوگی۔
(جاری ہے)

ناشتے میں تو تم دونوں شریک نہیں ہوئے ہمارے ساتھ… اب سینڈوچ اور چائے میں شریک ہوجاوٴ۔

”میں شریک ہوجاوٴں گی آپ کے ساتھ مگر صفدر نے بھرپور ناشتا کیا ہے۔ ان کے پاس ایک سینڈوچ کی بھی گنجائش نہیں ہوگی…“

”ہرگز نہیں، میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ سینڈوچ اور چائے پارٹی میں شامل ہوسکتا ہوں، میرا خیال ہے میں خاصی گنجائش رکھتا ہوں ابھی بھی۔“ انہوں نے اس انداز میں کہا کہ ثروت مسکرااٹھی تھیں جب کہ مثنیٰ کے چہرے پر چھائی سنجیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
پری خاموشی سے چہرہ جھکائے بیٹھی ہوئی تھی ، لاتعلقی بھرے انداز میں۔

”ہاں، ہاں کیوں نہیں…! سب سے زیادہ مجھے آپ کو کھاتے دیکھ کر خوشی ہوگی۔“ ثروت جہاں داماد کی بے تکلفی پر کھل اٹھی تھیں۔

”نہیں ماما! سینڈوچ کھانا تو درکنار، یہ سینڈ وچ دیکھیں گے بھی نہیں، مجھے ان کی ڈائٹ کا سختی سے خیال رکھنا پڑتا ہے، ڈاکٹر نے تنبیہ کی ہے کہ غذا کے معاملے میں ذرا بھی بدپرہیزی ہوئی تو شوگر کا حملہ ہوگا۔

”ایسی بات ہے تو میں اصرار نہیں کروں گی بیٹے!“ ثروت جہاں کو ان کی سلامتی عزیز تھی وہ فوراً کہہ اٹھیں۔

”آنٹی آپ بھی کہاں مثنیٰ کی باتوں میں آرہی ہیں۔“

”ماما کو معلوم ہے میں جھوٹ نہیں بولتی ہوں اور آپ اٹھیں! دیر ہورہی ہے آپ کو میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے، ٹائم ہوگیا ہے۔“وہ ان کے بازو پکڑ کر اٹھاتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔

”دیکھا آپ نے… یہ کتنی خراب ہیں۔
آپ سے بات بھی نہیں کرنے دے رہی ہیں مگر ہم رات کو ڈنر ساتھ کریں گے۔“وہ جاتے جاتے پری سے مخاطب ہوئے تھے۔

”یہ کیا حرکت ہے؟وہ کچھ دیر بیٹھنا چاہ رہے تھے ، بیٹھنے دیتیں۔“ صفدر جمال کی کارگیٹ سے باہر جاتے ہی وہ خفگی سے بولیں۔

”میں بیگماں کی مدد کرواتی ہوں۔“ پری اٹھ کر اندر چلی گئی۔

”تم نے دیکھا، اس نے کتنی شفقت سے پری سے بات کی ہے؟“

”پری کو ان کی شفقت کی ضرورت نہیں ہے، اس کا باپ ہے۔

”وہ بھی پری کا باپ ہے، خواہ سوتیلا ہی ہے لیکن باپ، باپ ہوتا ہے۔“

”سگے اور سوتیلے میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا دن اور رات میں … جب بیٹی جوان ہونے لگتی ہے تو باپ کی نگاہیں جھکنے لگتی ہیں اور اس کے برخلاف سوتیلے باپ کی نگاہیں وقت کے ساتھ ساتھ اٹھنے لگتی ہیں۔“ مثنیٰ نے سادگی سے تجزیہ کیا تھا۔

”خوامخواہ شک فضول ہوتا ہے۔
صفدر کو میں تم سے بہتر جانتی ہوں بلاشبہ وہ آزاد خیال ہے مگر رشتوں کے احترام کو سمجھتا ہے۔“ ثروت جہاں سنجیدگی سے گویا ہوئی تھیں۔

”میں جانتی ہوں ماما! پھر بھی ان رشتوں میں جتنی احتیاط برتی جائے، وہ بہتر ہے۔“

”شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ آج کل کا ماحول بھی تو بدل گیا ہے پھر مرد کی فطرت گرگٹ کی مانند ہے، کب رنگ بدل لے پتا ہی نہیں چلتا ہے۔
“انہیں بھی بیٹی کی بات میں وزن محسوس ہوا تو ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگی تھیں۔

###

”بتائیں نا! آپ میرے اور وردہ کے مطابق کیا جانتی ہیں اور کس طرح…؟“

”جب میں یہاں رہنے آئی تو محلے کے لوگوں نے مجھ سے دوستی کرنے کی کوششیں کی، ہر طریقہ، ہر وہ حربہ اپنایا کہ میں ان سے گھل مل جاوٴں اور میں … لوگوں سے خوف زدہ رہنے والی عورت بھلا کس طرح ایسی دوستیاں پال سکتی تھی، میں نے لوگوں سے جان چھڑانے کے لیے سردمہری و بدمزاجی اختیار کی … کیونکہ یہاں کی عورتیں ہی نہیں، مرد بھی مجھ سے دوستی کے خواہاں تھے۔
“ وہ نرم لہجے میں بتارہی تھیں۔

”لیکن رضیہ خالہ بتارہی تھیں آپ کے ہاں مرد آتے ہیں۔“ رجاء کو ان کی بات پر یقین نہیں آیا، وہ کہہ اٹھی۔ 

”رضیہ کو کس نے بتایا… اس کے خاوند نے…؟“ انہوں نے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔ رجاء نے گردن ہلا کر جواب دیا تھا اثبات میں۔

”اس محلے کے پہلے مرد ہیں وہ جنہوں نے مجھ سے دوستی کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلے، ازحد کوشش کی کہ کسی طرح بھی میں ان سے دوستی کرنے کے لیے تیار ہوجاوٴں۔

”وہ تو بہت شریف اور اچھے ہیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔“اس نے سادگی سے کہا تھا۔

اس کی عمر بھی تجربوں و کٹھنائیوں سے دور تھی۔ عمر، تجربہ اور مشکلات ہی انسان کو سچائی و فریب، جھوٹ و سوچ کی بصیرت دیتے ہیں۔ اس نے اپنی عمر و تجربہ کے لحاظ سے جو محسوس کیا وہ کہہ دیا۔

”صنف مخالف کی وہ قوم بڑی شاطر و بے رحم ہوتی ہے جو اپنے نفس کی اطاعت کرتی ہے۔
اپنی نفسانی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ایسے لوگ اس طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں کہ جن کا تصور بھی شریف لوگ نہیں کرسکتے۔“

”میں سمجھی نہیں آپ کی بات… پھر عارف انکل ایسا کس طرح کرسکتے ہیں؟“ رجاء سخت متوحش تھی۔ 

”یہاں کا فون نمبر پہلے ہی ان کے پاس تھا۔ وہ کبھی کھڑکی کے ذریعے اشاروں سے تو کبھی فون کے ذریعے اپنی کوششوں میں مگن رہے اور جب میں نے ان کو دھمکی دی کہ میں ان کی بیوی کو ساری حقیقت بتادوں گی تو پھر وہ یہاں سے ایسے غائب ہوئے کہ کبھی گھر کے قریب سے بھی نہیں گزرتے اور تب ہی سے مجھے خبریں ملنے لگیں کہ محلے میں کس انداز میں مجھے رسوا کیا جارہا ہے لیکن میں پروا کرنے والی نہیں ہوں۔
“ انہوں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔

”آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا…!“

”یہاں کے رہنے والے لوگوں کے گھروں میں کیا ہوتا ہے، کون شریف اور کون بدکردار ہے، میں سب جانتی ہوں۔ اس محلے میں جس گھر کو میں پسند کرتی ہوں، جن لوگوں کی میں عزت کرتی ہوں، وہ آپ کا گھر اور آپ کے والدین ہیں۔“اس کے لہجے میں سچائی تھی۔

”میراگھر! میرے امی ابو…؟“

”ہاں آپ کا گھر… آپ کے امی ابو… مجھے آپ کی فیملی میں اپنا بیتا ہوا کل دکھائی دیتا ہے۔
ایک انسیت سی محسوس ہوتی ہے۔“ وہ ماضی کے جھروکے میں جھانکتی آنکھوں سے کہہ رہی تھیں۔ اس وقت ان کے چہرے پرافسردہ سے رنگ پھیلے ہوئے تھے۔ 

”تب ہی آپ ہمارے گھر کی طرف دیکھتی رہا کرتی تھیں اور خصوصاً میرے کمرے کی طرف… آپ کو معلوم نہیں ہے، آپ کو اپنے کمرے کی طرف دیکھتا پاکر میں کس قدر خوف زدہ رہا کرتی تھی۔“

”مجھے معلوم ہے، آپ کے چہرے پر پھیلتے خوف کو میں دور سے بھی دیکھ لیا کرتی تھی۔
“ وہ شوخ انداز میں مسکرائیں۔

”میں آپ کی نگرانی کیا کرتی تھی کہ کہیں آپ وردہ کی باتوں میں بہک کر گھر سے فرا ر ہونے کی تیاریاں تو نہیں کررہی ہیں۔“

###

وہ نانو کے ہاں دو دنوں سے زیادہ رک نہ سکی تھی۔

گھر آئی تو دادی جان کو بیمار پایا اور ہر جگہ بے ترتیبی پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے آتے ہی پہلے ماسیوں کو کام میں لگایا اور خود بھی چیزوں کو ترتیب دینے لگی تھی۔

گھر چمک اٹھا تو وہ کچن میں چلی آئی جہاں صباحت موجود تھیں، جو قیمہ بھون رہی تھیں۔ انہوں نے سرسری نگاہ اس پر ڈالی مگر اس کے کانوں میں جھلملاتے ٹاپس دیکھ کر وہ سرسری نگاہ تھم کر رہ گئی۔ ان کی نگاہوں سے بے خبر پری دادی کے لیے چائے بنانے لگی تھی۔

”یہ ٹاپس میں ہیرے ہیں؟“ وہ قریب آکر سرد لہجے میں بولیں۔

”جی!“ وہ ان کے انداز پر پریشان ہوکر گویا ہوئی۔

”اس عورت نے دیئے ہیں؟“ لہجے میں حسد اور رقابت تھی۔

”جی ! مما نے دیئے ہیں۔“

”ہونہہ مما! اس عورت کو کہو اپنی دولت کی نمائش ہم کو قطعی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے، تمہیں ہیرے پہنا کر باہر کا قیمتی سامان بھیج کر وہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ہم تمہیں یہ سب نہیں دے سکتے ہیں؟“ صباحت غصے سے چیختے ہوئے کہہ رہی تھیں۔

”وہ ایسا کچھ نہیں چاہتیں، وہ صرف مجھ سے محبت کرتی ہیں۔

اس نے ہمیشہ ان کی عزت کی تھی، احترام کیا تھا ابھی بھی اس کی آواز میں دھیماپن و احترام موجود تھا جب کہ صباحت سراپا نفرت تھیں۔

”اوہ … محبت… ؟ ایسی ہی اس کو تم سے محبت تھی تو کیوں چھوڑ گئی تمہیں یہاں… ساتھ لے کر جاتی، کیوں تنہا بھاگ گئی؟“ ابھی ان کی زہر افشانی جاری ہی رہتی معاً وہاں آتے طغرل کو دیکھ کر ان کا مزاج ایک دم ہی بدلا تھا۔
ماتھے کی شکنیں، لہجے کی آگ غائب ہوگئی تھی۔ پری کا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا۔ ان کی نفرت بھری گفتگو اس کے اندر آگ ہی لگاچکی تھی، اس آگ کو صرف آنسو ہی ٹھنڈا کرسکتے تھے۔ اس کو نہیں معلوم باپ کی خطاتھی یا ماں کی غلطی، جو ان کا رشتہ ٹوٹنے کا باعث بنی۔ لیکن ان کی کی گئی جانے انجانے کی غلطیوں کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑرہا تھا اور نامعلوم کب تک اسے ان ناکردہ گناہوں کا عذاب برداشت کرنا تھا، وہ اکثر سوچتی تھی۔

”جو لوگ شادی جیسے رشتے کی پاسداری نہیں کرنا جانتے۔ ایک دوسرے کی خامیوں، خوبیوں کو قبول نہیں کرتے تو پھر اولادپیدا کرکے کیوں ان کو دوسروں کی ٹھوکروں میں پلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔“

”آنٹی! عادلہ کو کہیں جانا ہے، اس نے کال کی ہے؟“ اس کو آتے دیکھ کر پری تیزی سے سنک کی طرف بڑھ گئی تھی تاکہ اس کی آنکھوں میں پھیلی نمی دکھائی نہ دے سکے۔
طغرل نے اس کی اس حرکت کو محسوس کیا تھا۔ سواسے نظر انداز کرکے وہ صباحت سے مخاطب ہوا تھا۔

”اس کے دوست کی سالگرہ ہے۔ ڈرائیور چھٹی کرگیا ہے اور فیاض بھی دیر سے آئیں گے۔ اگر آپ ڈراپ کرآئیں تو فیاض کو اعتراض نہ ہوگا اور وہ تنہا جانے کی اس کو اجازت نہیں دیں گے۔“ ان کے لہجے میں اتنی مٹھاس و نرمی تھی کہ کچھ دیر قبل اس کی آواز سننے والا یقین نہ کرپایا تاکہ وہ لہجہ و انداز ان ہی کا تھا۔

”ٹھیک ہے میں تیار ہوکے آتا ہوں۔ عادلہ کو کہیں وہ بھی تیار رہے۔“

”شکریہ بیٹا! تم نے بہت بڑی مشکل حل کردی ہے۔“

”آپ شکریہ نہ کہیں آنٹی ! یہ تو میرا فرض ہے۔“ وہ کہہ کر چلا گیا تھا۔ اس کے جاتے ہی صباحت اپنے سابقہ موڈ میں آگئیں۔ پری نے دو کپوں میں چائے نکالی، ٹرے میں کپ رکھ ہی رہی تھی جب خوب نک سک سے تیار ہوئی عادلہ کہتی ہوئی آئی۔

”مما! ٹاپس نہیں مل رہے ہیں میچنگ کے میرے ڈریس کے ساتھ۔“ بولتے ہوئے نگاہ اس کی طرف تو اٹھی تو وہ اس کے پاس آئی۔

”واہ ! یہ ٹاپس کس قدر چمک دے رہے ہیں۔ کیا اصلی ہیرے ہیں؟ تم دو نا مجھے ابھی پہننے کے لیے … پلیز عادلہ کی فوراً ہی نیت خراب ہوئی تھی۔“

”کیاکروگی لے کر…؟ یہ تمہارے سوٹ کے میچنگ کا نہیں ہے۔“

”مما! آپ کو نہیں معلوم، ہیرا سب رنگوں پر میچ ہوتا ہے پھر ہیرے پہن کر جو مزہ دکھاوا کرنے میں آتا ہے اس کی بات ہی الگ ہے۔
“ پری نے ٹاپس اتار کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے تھے۔

”لے لو بھئی! کل کو یہ نہ سوچے کہ اس عورت کی دی ہوئی چیز سے ہم جل رہے ہیں پھر میں تم میں اور اس میں فرق نہیں رکھتی ہوں۔ “ صباحت کے انداز میں منافقت تھی۔ پری نے خوشی خوشی اس کو ٹاپس دیئے تھے۔ اس کو اپنی چیزیں بانٹنا اچھا لگتا تھا۔ اس کی چیزیں زیادہ تر عادلہ اور عائزہ استعمال کرتی تھیں۔

”ارے اتنے قیمتی ٹاپس تو نے اس کو پکڑادیئے ؟ وہ ایک نمبر کی بے ڈھنگی اور پھوہڑ لڑکی کسی چیز کو سنبھال نہیں سکتی۔ تو نے لاکھوں روپے کی مالیت کی چیز پکڑادی اس حریص لڑکی کو …؟“ دادی ایک دم ہی فکر مند ہوگئیں

   2
0 Comments